Header Ads

سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید سے پہلے اس کا فیصلہ بغور پڑھ لیں، ایسا نہ ہو کہ روز قیامت آپ کو ظالم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہو کر حساب دینا پڑے

سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید سے پہلے اس کا فیصلہ بغور پڑھ لیں، ایسا نہ ہو کہ روز قیامت آپ کو ظالم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہو کر حساب دینا پڑے۔
سپریم کورٹ نے جس بنیاد پر ملزم آسیہ کو بری کیا:
1۔ واقعہ چودہ جون 2009 کو پیش آیا اور اس کی ایف آئی آر 19 جون 2009 کو کاٹی گئی۔ مدعی کا نام قاری محمد سلام تھا، جسے اس کی بیوی نے بتایا کہ وہ جن دو عورتوں کو قرآن پڑھاتی ہے، انہوں نے قاری کی بیوی کو بتایا کہ آسیہ نامی ایک عیسائی خاتون نے نبی ﷺ کے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔
2۔ واقعے کی تفصیل کے مطابق 14 جون 2009 کو معافیہ، آسما اور یاسمین نامی خواتین سمیت فالسے کے کھیت میں کام کررہی تھیں اور وہاں آسیہ بھی موجود تھی۔ پانی پینے کے معاملے پر معافیہ اور آسما نے آسیہ سے کہا کہ وہ اس کے ہاتھوں کا پانی نہیں پی سکتیں جس پر آسیہ نے توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔
3۔ معافیہ اور آسما نے یہ بات اپنی معلمہ کو بتائی، جس نے اپنے شوہر قاری سلام سے کہا اور اس نے ایک پنچایت بلا کر آسیہ سے توہین رسالت کا اقرار کروا لیا۔
4۔ واقعے کے پانچ دن بعد ایف آئی آر کٹوائی گئی، پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد 295 سی کے تحت پرچہ کاٹا، جونئیر عدالت سے موت کی سزا سنا دی گئی اور اس پر ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوئی جو کہ مسترد ہوگئی۔
5۔ سپریم کورٹ میں جب اپیل دائر کی گئی تو تمام گواہان کے بیانات طلب کئے گئے۔ استغاثہ کی تیسری گوہ یاسمین اپنے بیان سے منحرف ہوگئی اور اس نے کہا کہ اس کے سامنے آسیہ نے کوئی توہین نہیں کی۔
6۔ کھیتوں میں 30 سے 35 دوسری عورتیں موجود تھیں، سب اس جھگڑے کی گواہ تھیں لیکن ان میں سے کسی نے آسیہ کو توہین کرتے نہیں سنا۔
6۔ گواہان کے بیانات میں تضاد کا عالم یہ تھا کہ ہر کسی نے پنچایت کی جگہ کا نام غلط بتایا۔ معافیہ نے کہا کہ پنچایت اس کے والد کے گھر پر ہوئی جبکہ آسما کے مطابق پنچایت اس کے پڑوسی رانا رزاق کے گھر پر ہوئی۔ رانا رزاق معافیہ کا والد نہیں ہے۔ ایک چوتھے گواہ کا کہنا ہے کہ یہ پنچایت مختار نامی شخص کے گھر پر ہوئی اور مزے کی بات یہ ہے کہ مدعی قاری نے بھی اپنے بیان میں مختار کا نام بعد میں شامل کیا۔ یعنی جس پنچایت کی بنیاد پر یہ مقدمہ کھڑا ہوا کہ اس پنچایت میں آسیہ نے اپنے جرم کا اقرار کیا، اس پنچایت کی جگہ کے بارے میں ہر گواہ نے غلط بتایا۔
7۔ گواہان کے بیان کے مطابق یہ پنچایت پانچ مرلے کے گھر میں ہوئی، کسی نے کہا کہ سو لوگ شریک تھے، کسی نے کہا دو سو سے تین سو لوگ۔ بعد میں گواہان نے دوبارہ بیان ریکارڈ کروا کر اس تعداد کو ایک ہزار سے زائد کردیا جس سے پنچایت کے منعقد ہونے کا سارا معاملہ ہی مشکوک ہوگیا۔ پانچ مرلے میں ایک ہزار لوگوں کی پنچایت کا تصور ہی محال ہے۔ تعداد کو زیادہ اس لئے بتایا گیا تاکہ اس میں شامل لوگوں کے نام نہ بتائے جاسکیں کیونکہ اگر تعداد کم ہوتی تو پوچھا جاتا کہ اس پنچایت میں شریک لوگوں کو گواہ کے طور پر بلائیں لیکن چار کے علاوہ کوئی بھی گواہ استغاثے میں شریک نہ ہوا جو کہ اس پنچایت کا چشم دید گواہ ہوتا۔
8۔ قانون کے مطابق 295 سی کے مقدمے کی تفتیش ایس پی رینک کا افسر کرسکتا ہے لیکن آسیہ بی بی کے مقدمے کی تفتیش ایک سب انسپکٹر نے کی، جو کہ قانون کی خلاف ورزی تھی۔
9۔ سیشن کورٹ کے جج نے موت کی سزا اس لئے سنائی کی آسیہ بی بی کا مقدمہ لڑنے کیلئے کوئی وکیل تیار نہ تھا، ہائی کورٹ نے سزا اس لئے برقرار رکھی کہ اس ممتاز قادری جیسے واقعے سے سب ڈرتے تھے۔ ہر کسی کو اپنی جان کی فکر تھی، انصاف کی کسے پرواہ تھی؟
10۔ ایک گواہ منحرف ہوگیا، تین گواہان کے بیانات آپس میں نہیں ملتے، مدعی قاری سلام کے اپنے بیانات میں تضاد ہے، کبھی وہ کہتا ہے کہ جب واقعہ پیش آیا وہ گاؤں سے باہر تھا، بعد میں کہا کہ وہ گاؤں میں ہی تھا۔ ۔ ۔ ۔
ایک انسانی جان کا معاملہ ہے، وہ انسانی جان کہ جس کی حرمت کے ذمے داری قرآن اور نبی ﷺ نے ہم پر عائد کردی۔ اگر تو آسیہ نے توہین رسالت ﷺ کی تھی تو آپ تسلی رکھیں، اللہ کو اپنے نبی ﷺ کی عزت کا احساس ہم سے کہیں زیادہ ہے، وہ ان سب سے حساب لے گا جو توہین میں ملوث ہوئے، اگر ججوں نے غلط فیصلہ دیا ہے تو اللہ ان سے بھی نمٹ لے گا ۔ ۔ ۔
لیکن اگر آسیہ نے توہین نہیں کی، اور اس بات کی تصدیق وہ اپنے بیان میں کرچکی ہے کہ اس نے بائبل پر حلف اٹھا کر الزام کی تردید کرنے کی آفر کی لیکن کوئی نہ مانا ۔ ۔ ۔ ۔ اگر آسیہ بے قصور ہوئی اور آپ اسے پھر بھی پھانسی پر چڑھانا چاہتے ہیں تو ایک انسانی جان آپ کی گردن پر ہوگی جس کا حساب قیامت والے دن دینا ہوگا۔
اگر آپ توہین رسالت ﷺ کے قانون کا تحفظ چاہتے ہیں تو اسی قانون کے تحت عدالت کے فیصلے کو بھی عزت دیں، اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو دفعہ 295 سی غیر مؤثر ہو کر رہ جائے گی ۔ ۔ ۔ آج آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ کل کلاں کو اگر کوئی بدبخت واقعی توہین رسالت ﷺ کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف تمام ثبوتوں کے ساتھ پراپر کاروائی ہوسکے ۔ ۔ ۔
295 سی اگر بچانا ہے تو عدالتی فیصلہ ماننا ہوگا، ورنہ اس قانون کو غیر مؤثر کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ آپ خود ہوں گے

No comments

Powered by Blogger.